بھولے ہوئے راستے کی روشنی

ایک وقت کی بات ہے، ایک چھوٹے سے گاؤں “القمر” میں ایک نوجوان رہتا تھا جس کا نام ادریس تھا۔ اس کے والد ایک عظیم عالم اور صاحبِ علم شخص تھے، جن کا انتقال ادریس کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ ادریس کی پرورش اس کی والدہ نے کی، جو ایک نرم دل، ایمان والی خاتون تھیں۔ وہ اسے نماز کی اہمیت، صبر، اور اللہ کے ساتھ تعلق کے بارے میں سکھاتی رہیں۔ لیکن جیسے ہی ادریس بڑا ہونے لگا، اس نے اپنے بچپن کی تعلیمات سے دوری اختیار کرنی شروع کر دی۔ دنیا کے لذتوں اور خواہشات کا زور بڑھا اور وہ ان کے پیچھے چلنے لگا۔
ادریس اپنے دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگا، بے فائدہ باتوں اور فضول کاموں میں محو ہونے لگا۔ نمازیں تیز اور مختصر ہونے لگیں، اور قرآن کا مطالعہ بہت کم ہو گیا۔ اس کی والدہ، جو ہر رات اس کے لیے دعا کرتی رہتی تھیں، اس کی حالت دیکھ کر فکر مند تھیں لیکن انہوں نے کبھی اس سے اس پر بات نہیں کی، بلکہ ہمیشہ اسے اپنے پیار اور دعاؤں سے تسلی دی۔
ایک دن، ادریس بازار میں چلتے ہوئے ایک بزرگ شخص سے ملا۔ ان بزرگ کا چہرہ سکون سے بھرا ہوا تھا اور ان کی آنکھوں میں ایک خاص روشنی تھی۔ وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے، مگر ان میں ایک خاص وقار تھا جو ادریس کی توجہ کا مرکز بنا۔
“بیٹے، کیا تمہیں امن کا راستہ معلوم ہے؟” بزرگ نے نرم آواز میں پوچھا۔
ادریس تھوڑا حیران ہو کر بولا، “مجھے لگتا ہے امن کا راستہ علم اور اچھے اعمال میں ہوتا ہے۔”
بزرگ شخص مسکرا کر بولے، “ہاں، لیکن علم بغیر سمجھ کے اور اعمال بغیر نیت کے خالی ہوتے ہیں۔ اصل امن کا راستہ دل میں ہے، اللہ کی رضا میں ہے۔”
ادریس ہنس کر بولا، “میں اس بارے میں سوچوں گا۔”
“سوچنا، لیکن گہرا سوچنا، کیونکہ ایک سوچ تمہاری زندگی کا رخ بدل سکتی ہے۔” بزرگ نے کہا اور آہستہ سے چلتے ہوئے بازار سے غائب ہوگئے۔
ادریس ان کے الفاظ پر غور کرتا رہا۔ اس رات، بہت دنوں کے بعد، اس نے قرآن اٹھایا اور اس کی تلاوت شروع کی۔ ایک آیت پر اس کی نظر پڑی:

“یقیناً اللہ کی یاد میں دلوں کو سکون ملتا ہے۔” (القرآن 13:28)
ادریس کا دل اچانک جھنجھوڑا۔ وہ احساس جو اس نے طویل عرصے سے نہیں محسوس کیا تھا، اب اس کے دل میں دوبارہ جاگ اُٹھا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا احساس تھا، مگر گہرا تھا۔
ادریس نے اس احساس کو فوراً نظر انداز کرنے کی کوشش کی، مگر وہ آیت اس کے ذہن میں بار بار گونجنے لگی۔ اسے یہ احساس ہونے لگا کہ وہ جو سکون اور چین تلاش کر رہا تھا، وہ اس نے اپنی زندگی میں نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ سکون جو صرف اللہ کے ذکر اور اس کی رضا میں تھا۔
ادریس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے راستے پر واپس لوٹ کر اللہ کے ساتھ تعلق کو دوبارہ قائم کرے گا۔ اس نے نمازوں کو باقاعدہ کرنا شروع کیا، قرآن کی تلاوت بڑھا دی، اور اپنے وقت کو علم حاصل کرنے اور اللہ کے قریب جانے کے لیے وقف کر دیا۔ دنیا کی لذتوں کا جال اس پر اثر انداز نہیں ہوا، اور اس نے اپنے زندگی کے مقصد کو پھر سے پہچان لیا۔
ادریس کی روز مرہ کی زندگی میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ پہلے جہاں وہ جلدی جلدی نماز پڑھتا تھا، اب وہ زیادہ دھیان سے نماز ادا کرتا۔ قرآن کو وہ نئے انداز سے پڑھنے لگا، جیسے ہر آیت میں زندگی کا کوئی نہ کوئی پیغام چھپاہو۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور اس کے قریب جانا ہے۔ ادریس نے اپنے دل کی دنیا کو بدلنا شروع کر دیا تھا۔ اس نے دنیا کے فانی لذتوں کو چھوڑ کر اپنی آخرت کی فلاح کی کوشش شروع کی۔
وہ گاؤں کے لوگوں کی مدد بھی کرنے لگا۔ جہاں پہلے وہ دنیاوی معاملات میں مصروف رہتا تھا، اب وہ گاؤں کے بچوں کو قرآن سکھانے آیا، بزرگوں کی مدد کرتا، اور ہر انسان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا۔ گاؤں والوں نے اس کی تبدیلی کو محسوس کیا اور اسے ایک بہتر انسان کے طور پر جانا۔
ادریس کی والدہ کو جب یہ سب دیکھا، تو وہ بہت خوش ہوئیں، کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے بیٹے کے لیے اچھائی اور ایمان کی دعا کی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ ایک دن اللہ اسے ہدایت دے گا۔
ایک دن، ادریس گاؤں کی سڑک پر چلتے ہوئے دوبارہ اس بزرگ شخص سے ملا۔ وہ درخت کے نیچے بیٹھے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
“تم نے راستے کی طرف واپس قدم بڑھایا ہے۔” بزرگ نے کہا، ان کی آواز میں اطمینان تھا۔
ادریس مسکرا کر بولا، “مجھے لگتا ہے کہ اب میں نے اسے پہچان لیا ہے۔”
بزرگ نے سر ہلایا اور مسکرا کر کہا، “یہ راستہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، لیکن یہ ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ زندگی میں چیلنجز آئیں گے، لیکن یاد رکھو، ہماری آزمائشوں میں ہم اللہ کے قریب پہنچتے ہیں۔”
ادریس ان کے الفاظ پر غور کرنے لگا۔ “میں کس طرح اس راستے پر ثابت قدم رہوں؟ دنیا بہت سی پریشانیوں اور وسوسوں سے بھری ہوئی ہے، کبھی کبھی یہ سب بہت بھاری لگتا ہے۔”
بزرگ شخص نے مسکرا کر کہا، “اصل بات یہ ہے کہ تمہارا مقصد ہمیشہ یاد رکھو۔ زندگی ایک امتحان ہے، اور اللہ کی رحمت ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتی ہے جو اسے تلاش کرتے ہیں۔ جب بھی تمہیں لگے کہ تم راستہ بھول گئے ہو، اللہ کی طرف رجوع کرو، اس سے معافی اور ہدایت مانگو۔ اور یاد رکھو، یہ راستہ صرف تمہاری ذاتی ترقی کا نہیں، بلکہ دوسروں کی مدد کرنے کا بھی ہے۔”
ادریس ان کے الفاظ پر گہرا غور کرتا رہا۔ “میں کس طرح دوسروں کی مدد کر سکتا ہوں جب میں خود بھی ابھی سیکھ رہا ہوں؟”
بزرگ شخص مسکرا کر بولے، “جو کچھ تم نے سیکھا ہے، وہ دوسروں کے ساتھ شیئر کرو۔ ایک چھوٹی سی مسکراہٹ، حوصلہ افزائی کے کچھ الفاظ، یا کسی کی مدد کرنا—یہ سب اللہ کی رضا کے لیے ہے۔”
ادریس کو ان باتوں نے بہت متاثر کیا۔ اس نے سمجھا کہ راستہ صرف ذاتی ترقی کا نہیں، بلکہ دوسروں کی مدد اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کا بھی ہے۔
ادریس نے اپنے گاؤں میں دوسروں کی مدد کرنے کا عزم کیا۔ وہ مقامی مسجد میں بچوں کو قرآن سکھانے لگا، بزرگوں کی مدد کرنے لگا، بیماروں کی عیادت کے لیے جانے لگا، اور دوسروں کی مدد کے لئے ہمیشہ دستیاب رہنے لگا۔ اس کی زندگی میں نہ صرف سکون آیا، بلکہ وہ گاؤں والوں میں محبت اور عزت کا باعث بن گیا۔
سالوں کے بعد، ایک دن ادریس گاؤں کے قریب پہاڑوں کے نیچے کھڑا تھا، جو ہمیشہ گاؤں کی نگرانی کرتے تھے۔ وہ ایک عقلمند شخص بن چکا تھا، لیکن اس کے دل میں اب بھی سیکھنے کا جذبہ تھا۔
تب اچانک، اس نے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ مڑ کر دیکھا تو وہی بزرگ شخص تھا، جن کا چہرہ ایک نورانی روشنی سے چمک رہا تھا۔
“تم نے بہت اچھا کیا۔” بزرگ شخص نے کہا، ان کی آواز میں محبت اور فخر تھا۔
ادریس مسکرا کر بولا، “آپ کا شکریہ۔ آپ کی رہنمائی کے بغیر، میں کبھی یہ سب نہیں سمجھ پاتا۔”
بزرگ شخص نے سر ہلا کر کہا، “یاد رکھو، راستہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے، علم، سخاوت، اور اللہ کی رضا کے راستے پر چلنا۔”
ادریس نے مسکرا کر کہا، “میں ان شاء اللہ اس راستے پر چلتا رہوں گا۔”
بزرگ شخص نے سر ہلایا، پھر آہستہ آہستہ گاؤں کی طرف چلتے ہوئے غائب ہوگئے۔ ادریس ان کے جانے کے بعد کھڑا رہا، لیکن اب وہ اکیلا نہیں تھا۔ وہ اللہ کی ہدایت اور اس کی رضا کے راستے پر چلنے کے لیے تیار تھا۔
ادریس نے یہ سیکھا کہ ایمان کا راستہ صرف ایک منزل نہیں، بلکہ ایک مسلسل سفر ہے—یہ سفر صبر، علم، محبت، اور اللہ کے ساتھ تعلق کا ہے۔
اور یوں ادریس کا سفر جاری رہا، اور وہ جانتا تھا کہ اللہ کی روشنی ہمیشہ اس کا راستہ دکھاتی رہے گی۔
